ادھورا خط
زارا ہمیشہ سے ایک خواب دیکھتی تھی—ایسا پیار جو کتابوں اور کہانیوں میں ہوتا ہے، جو وقت کے ساتھ کمزور نہیں پڑتا بلکہ اور مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ مگر زندگی کہانیوں جیسی کہاں ہوتی ہے؟
وہ ایک لائبریری میں کام کرتی تھی، جہاں ہر روز وہی لوگ آتے، کتابیں لیتے اور چلے جاتے۔ مگر ایک دن، ایک نیا چہرہ نظر آیا۔ حیدر—خود میں گم، گہرے خیالات میں ڈوبا ہوا ایک نوجوان، جو ہمیشہ خاموشی سے آ کر ایک ہی میز پر بیٹھتا اور پرانی محبت کی کہانیاں پڑھتا رہتا۔
زارا کو حیرت ہوئی۔ وہ اکثر اسے دیکھتی، مگر وہ کبھی نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔ ایک دن اس نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا
“آپ ہر روز یہاں آتے ہیں، مگر کبھی کوئی نئی کتاب نہیں مانگتے۔ کیا پرانی محبت کی کہانیوں میں کچھ خاص ہے؟”
حیدر نے پہلی بار نظریں اٹھائیں، اس کی آنکھوں میں ایک گہری اداسی تھی۔
“کیونکہ میری اپنی کہانی ادھوری رہ گئی تھی…”
زارا کچھ لمحے خاموش رہی، پھر آہستہ سے بولی
“ہر کہانی کا انجام وہ نہیں ہوتا جو ہم سوچتے ہیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کہانی خوبصورت نہیں تھی۔”
یہ سن کر حیدر مسکرا دیا—شاید بہت دنوں بعد۔ اس دن کے بعد دونوں کے درمیان خاموشی کم ہونے لگی۔ حیدر نے اپنی کہانی سنائی، اور زارا نے اسے سننے کے ساتھ ساتھ ایک نیا زاویہ دیکھنے میں مدد دی۔
دن گزرتے گئے، اور حیدر کی آنکھوں کی اداسی کم ہونے لگی۔ ایک دن وہ لائبریری میں زارا کے لیے ایک خط چھوڑ کر چلا گیا۔ خط میں لکھا تھا
کبھی سوچا نہیں تھا کہ میں اپنی کہانی کا دوسرا باب لکھنے کا حوصلہ رکھوں گا، مگر تم نے ثابت کر دیا کہ ہر اختتام کے بعد ایک نئی شروعات ہوتی ہے۔ اگر تم چاہو، تو میں اپنی کہانی میں تمہیں شامل کرنا چاہتا ہوں۔
زارا نے خط کو بند کیا، مسکرائی اور دل میں سوچا
“شاید کچھ کہانیاں واقعی کبھی ختم نہیں ہوتیں…”
“محبت کبھی مکمل نہیں ہوتی، یہ ہمیشہ بڑھتی رہتی ہے… بس ہمیں اسے سمجھنے والا کوئی مل جائے”