poem fitnay taswuf by allama iqbal tashree

:1شعر

خودى کی موت سے مغرب کے اندر فتنہ ہائے نو
تصوف کی میاں! اسرار سے کیا باخبر ہے تو؟

:مفہوم

اس شعر میں علامہ اقبال خودی کی اہمیت کو اجاگر کر رہے ہیں، خاص طور پر اس بات پر کہ مغرب کی ثقافت میں خودی کی موت سے نئے فتنے جنم لے رہے ہیں۔ اقبال تصوف کی روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ کیا اس کی حقیقی اسرار سے آگاہی حاصل کی گئی ہے۔ یہ شعر انسان کی روحانی بیداری اور خودی کی طاقت کی ضرورت کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ اقبال یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر ہم اپنی روحانی جڑوں سے دور ہو جائیں تو ہماری شناخت کمزور ہو سکتی ہے۔ اس میں ایک طرح کی تنقید بھی ہے کہ جدیدیت کے چنگل ( جدید دور کی ثقافت اور زندگی کی مادی حیثیت کے اثرات میں پھنس جانا، جس سے انسان کی روحانی اور اخلاقی شناخت متاثر ہوتی ہے۔ ) میں آ کر انسان اپنی اصل حیثیت کو بھول جاتا ہے۔

:تشریح

علامہ اقبال (1877-1938) نہ صرف ایک عظیم شاعر تھے بلکہ وہ ایک ایسے مفکر اور فلسفی بھی تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نئی فکری اور نظریاتی سمت عطا کی۔ ان کی شاعری نے خودی، عمل، آزادی، اور اتحاد کا درس دیا اور وہ پاکستان کے نظریاتی بانی سمجھے جاتے ہیں۔ اقبال نے مشرقی اور مغربی فلسفوں کا مطالعہ کیا اور ان کا امتزاج / مجموعہ پیش کیا۔ ان کا سب سے نمایاں فلسفہ “خودی” ہے، جو انسان کو اپنی ذات کا شعور اور اعتماد حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ان کے نزدیک انسان تبھی آزاد اور خودمختار ہو سکتا ہے جب وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر عمل کے میدان میں قدم رکھے۔ اقبال کا ماننا تھا کہ انسان کی عظمت اس کے اپنے وجود میں چھپی ہوتی ہے۔  اقبال مسلمانوں کو سستی اور مایوسی سے نکال کر جدوجہد اور عمل کا پیغام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اتحاد اور اجتماعی کوششوں کے بغیر قومیں ترقی نہیں کر سکتیں۔ اقبال کی زندگی اور کام کا مقصد مسلمانوں کو بیداری اور خودشناسی کا سبق دینا تھا۔ انہوں نے فکری اور روحانی آزادی کے ساتھ ساتھ عمل اور اتحاد پر زور دیا تاکہ مسلمان ایک خودمختار قوم بن سکیں۔ اقبال کی شاعری اور فکر آج بھی مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

خودی کی موت سے مراد  ہے کہ جب انسان اپنی خودی (خود اعتمادی، خود شناسی) کو کھو دیتا ہے تو وہ اپنی اصل حیثیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اقبال کے نزدیک خودی انسان کی روحانی قوت ہے، جو اس کی کامیابی اور ترقی کی بنیاد ہے۔ مغرب کی تہذیب کی مادی نوعیت انسان کی خودی کو مٹا دیتی ہے۔ “فتنہ ہائے نو” سے مراد ہیں وہ نئے چیلنجز اور مشکلات جو مغربی ثقافت کے اثرات کے نتیجے میں پیدا ہو رہی ہیں۔ یہ چیلنجز انسانی اقدار، روحانیت، اور ثقافتی شناخت کو متاثر کر رہے ہیں۔ اقبال یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مغرب کی مادی فکر انسانیت کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔ تصوف، اسلامی روحانیت کا ایک اہم پہلو ہے جو انسان کو اپنی داخلی دنیا کی تلاش، خدا کے ساتھ تعلق اور روحانی بیداری کی طرف راغب کرتا ہے۔ اقبال اس شعر میں تصوف کو ایک ممکنہ حل کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو انسان کو روحانی بیداری اور اخلاقی اقدار کی طرف لوٹنے میں مدد کر سکتا ہے۔ اقبال کے نزدیک، تصوف اور روحانیت کی بنیاد پر ایمان کی ضرورت ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا جدید دور کے لوگ اس روحانی علم اور اسرار سے باخبر ہیں؟ اس کا مقصد لوگوں کو اپنی روحانی شناخت کی طرف لوٹنے کی دعوت دینا ہے تاکہ وہ اپنی خودی کو دوبارہ حاصل کر سکیں۔ اقبال کا سوال “کیا باخبر ہے تو؟” اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہمیں اپنی روحانی ورثے اور تصوف کے اسرار کی طرف واپس لوٹنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ان اسرار سے باخبر نہیں ہوں گے تو ہم اپنی شناخت کھو بیٹھیں گے۔ اگر انسان خودی کو برقرار رکھے اور روحانی علم کی طرف توجہ دے، تو وہ ان فتنوں کا مقابلہ کر سکتا ہے اور اپنی شناخت کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔

یہ شعر اقبال کی شاعری میں ایک اہم موضوع کی نمائندگی کرتا ہے، جہاں وہ خودی، روحانیت، اور ثقافتی شناخت کی بات کرتے ہیں۔ ان کے کلام میں یہ خیالات بار بار آتے ہیں، اور یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے ایک نئے عہد کی بنیاد رکھی، جہاں روحانی بیداری اور خودی کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ شعر ایک دعوت فکر ہے، جہاں اقبال ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہمیں اپنی روحانی بنیادوں کو سمجھنے اور ان پر قائم رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف مادی کامیابی کا پیچھا کرنے سے کچھ حاصل نہیں. اقبال کے نزدیک، جدید دور کی مادی زندگی انسان کے اندر ایک روحانی بحران پیدا کر رہی ہے۔ خودی کی موت سے انسان اپنی شناخت اور اخلاقی اقدار کو کھو دیتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ اندرونی فتنوں کا شکار ہو جاتا ہے

:2شعر

وہ حکمت ناز تھا جس پر، حقیقت سے تھا خالی
محبت تھی فقط اک ساز کا افسانہ ہو جیسے

:مفہوم

اس شعر میں علامہ اقبال ایک ایسی حکمت کی تنقید کر رہے ہیں جو صرف ظاہری شان و شوکت پر مبنی ہے، لیکن اس میں کوئی حقیقی علم یا سچائی نہیں ہے۔ “محبت” کو ایک ساز (آلہ) کی طرح بیان کیا گیا ہے، جو صرف ایک افسانہ یا کہانی کی مانند محسوس ہوتی ہے۔ یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حقیقی محبت اور حکمت کی جڑیں گہری ہونی چاہئیں، ورنہ یہ صرف ایک دکھاوا رہ جائیں گی۔ اقبال اس کے ذریعے ہمیں حقیقی جذبات اور علم کی تلاش کی اہمیت کی یاد دلاتے ہیں۔

:تشریح

علامہ اقبال (1877-1938) نہ صرف ایک عظیم شاعر تھے بلکہ وہ ایک ایسے مفکر اور فلسفی بھی تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نئی فکری اور نظریاتی سمت عطا کی۔ ان کی شاعری نے خودی، عمل، آزادی، اور اتحاد کا درس دیا اور وہ پاکستان کے نظریاتی بانی سمجھے جاتے ہیں۔ اقبال نے مشرقی اور مغربی فلسفوں کا مطالعہ کیا اور ان کا امتزاج / مجموعہ پیش کیا۔ ان کا سب سے نمایاں فلسفہ “خودی” ہے، جو انسان کو اپنی ذات کا شعور اور اعتماد حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ان کے نزدیک انسان تبھی آزاد اور خودمختار ہو سکتا ہے جب وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر عمل کے میدان میں قدم رکھے۔ اقبال کا ماننا تھا کہ انسان کی عظمت اس کے اپنے وجود میں چھپی ہوتی ہے۔  اقبال مسلمانوں کو سستی اور مایوسی سے نکال کر جدوجہد اور عمل کا پیغام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اتحاد اور اجتماعی کوششوں کے بغیر قومیں ترقی نہیں کر سکتیں۔ اقبال کی زندگی اور کام کا مقصد مسلمانوں کو بیداری اور خودشناسی کا سبق دینا تھا۔ انہوں نے فکری اور روحانی آزادی کے ساتھ ساتھ عمل اور اتحاد پر زور دیا تاکہ مسلمان ایک خودمختار قوم بن سکیں۔ اقبال کی شاعری اور فکر آج بھی مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

حکمت ناز اس میں “ناز” کا مطلب ہے نازک یا ظاہری خوبصورتی۔ اقبال اس اصطلاح کے ذریعے ان نظریات کی بات کر رہے ہیں جو ظاہری لحاظ سے دلکش ہیں، لیکن ان کا حقیقی علم یا گہرائی میں کوئی وزن نہیں ہے۔ یہ حکمت وقت کے ساتھ چلنے والی اور عارضی ہوتی ہے، جیسے فیشن۔ “حقیقت سے تھا خالی” اقبال کے نزدیک یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایسی حکمت جو حقیقی تجربات یا علم کی بنیاد پر نہیں ہے، وہ انسان کو حقیقی زندگی کی سچائیوں سے دور کر دیتی ہے۔ یہ زندگی کے مقصد، معانی، اور انسانی تجربات کو سطحی بنا دیتی ہے۔ “محبت” کو “فقط اک ساز کا افسانہ” کے طور پر بیان کرنا ایک گہری تنقید ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محبت ایک سادہ سا دکھاوا یا کہانی بن کر رہ گئی ہے، جس کا کوئی حقیقی احساس نہیں ہے۔ یہ محبت ایسی ہے جو صرف سطحی اور عارضی ہے، اس میں گہرائی اور استحکام نہیں ہے۔ اقبال کی شاعری میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انسانی تجربات کا مجموعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ حقیقی محبت اور حکمت کا سفر مشکل اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی روحانی بنیادوں کو سمجھنے کے لیے گہرائی میں جانا ہوگا۔ ساز یہاں ساز ایک موسیقی کے آلے کی طرح استعمال ہوا ہے، جو خوشی اور جذبات کی نمائندگی کرتا ہے۔ لیکن اقبال بتا رہے ہیں کہ یہ خوشی عارضی ہے، جیسے ساز کی آواز ایک وقت کے بعد مدھم ہو جاتی ہے۔ محبت بھی اسی طرح کا ایک افسانہ بن جاتی ہے، جس کا کوئی مستقل اثر نہیں ہوتا۔

اس شعر کے ذریعے اقبال ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہمیں اپنی روحانی و اخلاقی بنیادوں کی تلاش کرنی چاہیے۔ حقیقی محبت اور حکمت کی جڑیں ہماری تجربات اور روحانی بیداری میں ہیں، نہ کہ صرف ظاہری خوشیوں یا فلسفوں میں۔ اگر ہم اپنی روحانی و اخلاقی بنیادوں کو سمجھیں گے تو ہم حقیقی محبت اور حکمت کو پا سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی خودی اور اندرونی دنیا کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم سطحی محبتوں( اس کا مطلب ہے ایسی محبتیں جو عارضی، غیر حقیقی یا ظاہری ہوں، جن میں گہرائی یا پائیداری کا فقدان ہو۔ یہ محبتیں صرف ظاہری جذبات پر مبنی ہوتی ہیں اور ان کی بنیاد حقیقی احساسات نہیں ہوتی۔) اور حکمتوں سے آگے بڑھ سکیں۔

:3شعر

خدائی بات میں لپٹی ہوئی ابلیس کی آواز
وہ لذت، دل کو جو سوزِ عمل سے دور کر دے

:مفہوم

اس شعر میں علامہ اقبال خدائی باتوں میں پوشیدہ ابلیس کی آواز کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات ایسی باتیں، جو خدا کی طرف سے معلوم ہوتی ہیں، دراصل انسان کو گمراہ کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ اقبال یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایسی لذتیں عموماً مادی اور عارضی ہوتی ہیں، جو انسان کو روحانی بیداری اور ترقی کی راہ سے ہٹا دیتی ہیں۔ اس شعر میں اقبال ہمیں آگاہ کر رہے ہیں کہ ہمیں اپنی خودی اور حقیقی مقصد کی تلاش میں مستقل مزاجی سے عمل کرنا چاہیے، اور ان فریبوں سے بچنا چاہیے۔

:تشریح

علامہ اقبال (1877-1938) نہ صرف ایک عظیم شاعر تھے بلکہ وہ ایک ایسے مفکر اور فلسفی بھی تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نئی فکری اور نظریاتی سمت عطا کی۔ ان کی شاعری نے خودی، عمل، آزادی، اور اتحاد کا درس دیا اور وہ پاکستان کے نظریاتی بانی سمجھے جاتے ہیں۔ اقبال نے مشرقی اور مغربی فلسفوں کا مطالعہ کیا اور ان کا امتزاج / مجموعہ پیش کیا۔ ان کا سب سے نمایاں فلسفہ “خودی” ہے، جو انسان کو اپنی ذات کا شعور اور اعتماد حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ان کے نزدیک انسان تبھی آزاد اور خودمختار ہو سکتا ہے جب وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر عمل کے میدان میں قدم رکھے۔ اقبال کا ماننا تھا کہ انسان کی عظمت اس کے اپنے وجود میں چھپی ہوتی ہے۔  اقبال مسلمانوں کو سستی اور مایوسی سے نکال کر جدوجہد اور عمل کا پیغام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اتحاد اور اجتماعی کوششوں کے بغیر قومیں ترقی نہیں کر سکتیں۔ اقبال کی زندگی اور کام کا مقصد مسلمانوں کو بیداری اور خودشناسی کا سبق دینا تھا۔ انہوں نے فکری اور روحانی آزادی کے ساتھ ساتھ عمل اور اتحاد پر زور دیا تاکہ مسلمان ایک خودمختار قوم بن سکیں۔ اقبال کی شاعری اور فکر آج بھی مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

خدائی بات یہ ایک ایسا تصور ہے جو روحانیت اور اخلاقیات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اقبال اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ بعض اوقات یہ خدائی باتیں لوگوں کے لیے خوش کن ہوتی ہیں، لیکن ان کی حقیقی اصل کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہاں وہ خدائی حقائق کو خطرے میں ڈالنے والے ابلیسی اثرات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ابلیس کی آواز اقبال یہاں ابلیس کو اس حیثیت میں پیش کر رہے ہیں کہ وہ خدائی باتوں کے پس پردہ موجود ہو سکتا ہے۔ یعنی، بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ جو چیزیں روحانی اور نیک نظر آتی ہیں، ان کے پیچھے فریب یا گمراہی ہو سکتی ہے۔ یہ ایک انتباہ ہے کہ ہمیں ہر چیز کو تنقیدی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ یہاں “لذت” سے مراد وہ خوشیاں اور عیش و آرام ہیں جو عموماً عارضی اور عمیق معنوں میں خالی ہوتی ہیں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو وقتی خوشی تو فراہم کرتی ہیں، لیکن ان کے نتیجے میں انسان کی جدوجہد اور روحانی بیداری میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں۔ “سوزِ عمل” یہ ایک گہرا مفہوم رکھتا ہے، جس میں محنت، جذبہ، اور زندگی کے مقاصد کی جستجو شامل ہے۔ اقبال یہ بتاتے ہیں کہ جب انسان ان عارضی لذتوں میں گم ہو جاتا ہے تو وہ اپنی محنت اور کوشش کو بھول جاتا ہے۔ سوزِ عمل دراصل ایک روحانی توانائی ہے جو انسان کو کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔ اقبال کی شاعری میں یہ موضوع اکثر ملتا ہے کہ روحانی و اخلاقی نقصانات کی شناخت اور ان سے بچنا ضروری ہے۔ جب انسان صرف ظاہری خوشیوں کی پیروی کرتا ہے تو وہ اپنی روحانی حالت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اقبال یہ بتاتے ہیں کہ سچائی کی تلاش میں ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کچھ چیزیں ہمیں درحقیقت نقصان دے سکتی ہیں۔ حقیقی محبت، علم، اور حکمت وہ ہیں جو انسان کے تجربات سے حاصل ہوتی ہیں۔ ان تجربات کے ذریعے ہی انسان اپنی خودی کو سمجھتا ہے اور اپنی جدوجہد میں معنی پیدا کرتا ہے۔ اقبال ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ ہر بات کو تنقیدی نظر سے دیکھنا چاہیے، چاہے وہ خدائی بات ہو یا کوئی اور۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر چیز کی حقیقت کو جانچنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمیں اپنی زندگی کے فیصلے بہتر طریقے سے کرنے میں مدد دے گا۔

اس شعر کے ذریعے اقبال ہمیں یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہمیں اپنی روحانی ترقی کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے، اور اس راستے میں آنے والی عارضی خوشیوں سے بچنا چاہیے۔ حقیقی کامیابی اور خوشی ان چیزوں میں ہے جو انسان کی خودی اور عمل سے جڑی ہوں۔ موجودہ دور میں انسان کیسے لذتوں کے چکر میں اپنی حقیقی خودی، کوشش، اور جدوجہد کو بھول رہا ہے۔ یہ ایک آگاہی ہے کہ ہمیں اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے اور ہر چیز کی حقیقت کو سمجھنا ہوگا۔

:4شعر

حرم کے دل میں سجدے اور نظر مسجد کے در پر
وہ تقلید جو روحِ انقلاب سے عاری ہو

:مفہوم

اس شعر میں علامہ اقبال حقیقی روحانیت کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ “حرم کے دل میں سجدے” سے مراد ہے کہ عبادت دل کی گہرائی سے ہونی چاہیے، جبکہ “نظر مسجد کے در پر” صرف ظاہری رسومات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اگر عبادت یا عمل میں کوئی حقیقی انقلابی جذبہ نہ ہو، تو وہ محض ایک سطحی تقلید یا پیروی بن جاتی ہے۔ یہ شعر اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ روحانی تجربہ کے لیے ہمیں دل کی سچائی اور گہرائی کو اپنانا ہوگا، ورنہ ہم صرف ظاہری عبادتوں میں محدود رہ جائیں گے۔

:تشریح

علامہ اقبال (1877-1938) نہ صرف ایک عظیم شاعر تھے بلکہ وہ ایک ایسے مفکر اور فلسفی بھی تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نئی فکری اور نظریاتی سمت عطا کی۔ ان کی شاعری نے خودی، عمل، آزادی، اور اتحاد کا درس دیا اور وہ پاکستان کے نظریاتی بانی سمجھے جاتے ہیں۔ اقبال نے مشرقی اور مغربی فلسفوں کا مطالعہ کیا اور ان کا امتزاج / مجموعہ پیش کیا۔ ان کا سب سے نمایاں فلسفہ “خودی” ہے، جو انسان کو اپنی ذات کا شعور اور اعتماد حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ان کے نزدیک انسان تبھی آزاد اور خودمختار ہو سکتا ہے جب وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر عمل کے میدان میں قدم رکھے۔ اقبال کا ماننا تھا کہ انسان کی عظمت اس کے اپنے وجود میں چھپی ہوتی ہے۔  اقبال مسلمانوں کو سستی اور مایوسی سے نکال کر جدوجہد اور عمل کا پیغام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اتحاد اور اجتماعی کوششوں کے بغیر قومیں ترقی نہیں کر سکتیں۔ اقبال کی زندگی اور کام کا مقصد مسلمانوں کو بیداری اور خودشناسی کا سبق دینا تھا۔ انہوں نے فکری اور روحانی آزادی کے ساتھ ساتھ عمل اور اتحاد پر زور دیا تاکہ مسلمان ایک خودمختار قوم بن سکیں۔ اقبال کی شاعری اور فکر آج بھی مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

یہاں حرم سے مراد وہ مقدس جگہیں ہیں جہاں عبادت کی جاتی ہے، مثلاً خانہ کعبہ یا دیگر مقدس مقامات۔ “دل میں سجدے” کا مطلب یہ ہے کہ عبادت صرف ظاہری سجدے تک محدود نہیں ہونی چاہیے، بلکہ یہ دل کی گہرائی اور عقیدت سے کی جانی چاہیے۔ یہ حقیقی روحانیت کا اظہار ہے۔ “نظر مسجد کے در پر”  یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص صرف مسجد کے دروازے پر نظر رکھے اور اس کے اندر کی روحانیت سے محروم رہے، تو اس کی عبادت حقیقی نہیں ہے۔  اقبال اس مصرعے میں کہتے ہیں کہ انسان اگر جسمانی طور پر مسجد کے در پر سجدہ کر رہا ہو، لیکن دل میں صحیح جذبہ نہ ہو، تو اس عبادت کا کوئی اصل فائدہ نہیں ہوتا۔ اقبال اس مصرعے میں “تقلید” (نقل کرنا) کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہاں وہ اس بات کو بیان کرتے ہیں کہ اگر تقلید صرف ظاہری طور پر ہو، یعنی کسی کی رہنمائی یا عمل کو بغیر کسی سمجھ کے پیچھا کیا جائے، اور اس میں روحِ انقلاب (یعنی اندرونی تبدیلی یا اصلاح) نہ ہو، تو وہ تقلید بے فائدہ اور محض رسم و رواج بن کر رہ جاتی ہے۔ اقبال کا پیغام یہاں یہ ہے کہ اسلام اور اس کی عبادات کا مقصد صرف ظاہری عبادت نہیں ہے، بلکہ ان عبادات میں روحانی اور اندرونی تبدیلی کا عنصر ہونا ضروری ہے۔ اقبال کی نظر میں، تقلید کا مقصد صرف دوسروں کے عمل کو نقل کرنا نہیں ہے، بلکہ اسے انقلاب کی روح سے ہم آہنگ کرنا چاہیے تاکہ انسان کی شخصیت میں گہرائی، بصیرت اور خودی کا احیاء ہو سکے۔ وہ تقلید کو روحانی بیداری کی طرف لے جانے والے عمل کے طور پر دیکھتے ہیں، نہ کہ محض روایات کی پیروی کے طور پر۔ اقبال یہاں مسلمانوں کو یہ سبق دینا چاہتے ہیں کہ عبادت، سجدہ یا عقیدت کی حالت صرف رسم کے طور پر نہیں ہونی چاہیے۔ عبادت میں دل کی موجودگی اور مکمل عقل و شعور کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، تقلید میں بھی نہ صرف پیروی کی ضرورت ہے، بلکہ انقلاب کی روح، یعنی سوچنے، سمجھنے اور نئی بصیرت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

اقبال کے مطابق، عبادت کا مقصد صرف ظاہری سجدے یا رسمیں ادا کرنا نہیں ہے، بلکہ ان عبادات کا مقصد انسان کی روح میں تبدیلی لانا اور اسے خُود شناسی اور خُدا شناسی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ وہ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ عبادت میں دل کی موجودگی ضروری ہے، یعنی دل و دماغ میں خلوص اور فکرِ صحیح کا ہونا ضروری ہے۔ اقبال ہمیشہ انسان کو “خودی” کے فلسفے کی طرف مائل کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان صرف ظاہری عبادات اور رسموں میں مشغول نہ ہوں، بلکہ ان عبادات کے ذریعے اپنے اندر تبدیلی لائیں، روحانیت اور علم میں اضافہ کریں، اور “انقلاب” کی روح کے ساتھ دنیا میں تبدیلی لانے کے لیے کوشش کریں۔

 

 

 

 

Leave a Comment