ایک روپیہ
شہر کے سب سے بڑے بازار میں ایک بوڑھا فقیر روز بیٹھتا تھا۔ اس کی داڑھی سفید، کپڑے پرانے، مگر آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ وہ ہر آنے جانے والے سے ایک ہی جملہ کہتا
“بیٹا، ایک روپیہ دے دو، اللہ تمہیں بہت دے گا”
لوگ اسے نظر انداز کر دیتے، کچھ مذاق اڑاتے، اور کچھ حقارت سے کہتے، ایک روپے میں کیا ہوتا ہے، بابا؟
ایک دن، علی نامی ایک نوجوان وہاں سے گزرا۔ وہ ایک غریب طالب علم تھا، جس کی جیب میں بس پانچ روپے بچے تھے۔ وہ سوچ میں پڑ گیا، پھر مسکرا کر بولا
بابا، میرے پاس صرف پانچ روپے ہیں، لیکن میں آپ کو ایک روپیہ دے سکتا ہوں۔
بوڑھے نے شکریہ ادا کیا اور کہا، بیٹا، اللہ تمہیں اس ایک روپے کے بدلے وہ دے گا جو تم سوچ بھی نہیں سکتے
علی نے یہ بات بس ایک عام دعا سمجھ کر نظر انداز کر دی اور آگے بڑھ گیا۔
اگلے دن، علی یونیورسٹی کے راستے میں تھا کہ اسے سڑک کنارے ایک بٹوا پڑا ملا۔ جب اس نے اٹھا کر دیکھا، تو اس میں پانچ ہزار روپے تھے
وہ حیران رہ گیا۔ اسے فوراً بوڑھے کی بات یاد آئی۔
کیا یہ واقعی میری قسمت بدلنے کی شروعات ہے؟
وہ خوشی خوشی گھر پہنچا، مگر پھر دل میں خیال آیا، یہ پیسے کسی کے ہیں، اگر میں رکھ لوں تو کیا یہ سچ میں برکت دیں گے؟
یہ سوچ کر وہ بٹوا لے کر قریبی دکان پر گیا، جہاں اسے ایک پریشان حال آدمی ملا۔ وہ آدمی اپنا بٹوا کھونے کی بات کر رہا تھا۔ علی نے ایمانداری سے وہ بٹوا واپس کر دیا۔
وہ آدمی حیران ہو کر بولا، بیٹا، تمہاری ایمانداری آج کل کے زمانے میں نایاب ہے! میں ایک بڑی کمپنی میں کام کرتا ہوں، اور مجھے ایماندار لوگ چاہیے ہوتے ہیں۔ کیا تم نوکری تلاش کر رہے ہو؟
علی حیران رہ گیا۔ وہ کئی مہینوں سے نوکری کی تلاش میں تھا۔
کچھ دن بعد، علی نے اسی بوڑھے کو بازار میں دیکھا۔ وہ دوڑا دوڑا اس کے پاس گیا اور کہا
بابا، آپ کی دعا سچ ہو گئی! میں نے ایک روپیہ دیا، اور مجھے نوکری مل گئی
بوڑھا مسکرا کر بولا، بیٹا، اللہ کی راہ میں دیا ہوا کبھی ضائع نہیں جاتا۔ اصل نیکی یہ نہیں کہ کتنا دیا، بلکہ یہ ہے کہ تم نے خلوص سے دیا
علی کی آنکھوں میں احترام کے آنسو آ گئے۔
سبق
کبھی بھی نیکی کو چھوٹا مت سمجھو۔ چھوٹا سا اچھا کام، کسی کا دیا گیا چھوٹا سا سکہ، کسی کی کہی ہوئی ایک نیک بات—یہ سب زندگی بدل سکتے ہیں۔