کال 13
حمزہ رات کے 12 بجے تک کام کر کے گھر لوٹ رہا تھا۔ وہ تھکا ہوا تھا، مگر گاڑی چلاتے وقت نیند بالکل نہیں آ رہی تھی۔ سڑک سنسان تھی، اسٹریٹ لائٹس مدھم جل رہی تھیں، اور موسم میں ایک عجیب سی گھبراہٹ تھی، جیسے کچھ ہونے والا ہو۔
جیسے ہی وہ اپنے محلے کے قریب پہنچا، اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے حیرت سے موبائل اٹھایا— نامعلوم نمبر
اتنی رات گئے کون ہو سکتا ہے؟ اس نے خود سے کہا، مگر تجسس کے مارے کال ریسیو کر لی۔
“ہیلو؟”
چند لمحوں تک خاموشی رہی، پھر ایک سرگوشی سنائی دی
“اگر زندگی چاہتے ہو تو فوراً گاڑی روک دو”
حمزہ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ کون ہو تم؟ یہ مذاق بند کرو
فون بند ہو گیا۔
حمزہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اس نے کال لاگ چیک کیا، مگر کوئی نمبر موجود نہیں تھا، جیسے وہ کال کبھی ہوئی ہی نہ ہو۔
شاید تھکن کی وجہ سے وہم ہو رہا ہے۔ اس نے خود کو تسلی دی اور گاڑی چلاتا رہا۔
لیکن چند لمحوں بعد، فون دوبارہ بجا—اسی نامعلوم نمبر سے
اس بار حمزہ کے ہاتھ پسینے سے بھیگ گئے۔ ہچکچاتے ہوئے اس نے کال ریسیو کی۔
میں نے کہا تھا گاڑی روک دو وہی سرگوشی، مگر اس بار زیادہ سخت اور خطرناک لہجے میں
حمزہ کو جیسے کسی نے جکڑ لیا ہو۔ خوف اور تجسس کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اس نے جھٹکے سے بریک لگا دی۔
اور اگلے ہی لمحے، سامنے سے ایک بےقابو ٹرک پوری رفتار سے گزرا، بالکل اسی جگہ سے جہاں چند سیکنڈ پہلے اس کی گاڑی چل رہی تھی
حمزہ کا دماغ سن ہو گیا۔ اگر میں کال پر یقین نہ کرتا تو…؟
اس نے کانپتے ہاتھوں سے فون دیکھا، مگر اس بار کال لاگ میں کچھ بھی نہیں تھا
وہ کال کس نے کی تھی؟ وہ سرگوشی کس کی تھی؟ کوئی تھا، یا پھر…؟
یہ سوال آج بھی حمزہ کے ذہن میں گردش کر رہا تھا، مگر وہ جانتا تھا کہ کال 13 نے اس کی جان بچا لی تھی… یا شاید کوئی اس کی قسمت کا کھیل کھیل رہا تھا؟