آخری خط
بارش کی بوندیں کھڑکی کے شیشے سے ٹکرا رہی تھیں۔ رمشا خاموشی سے بیٹھی کھڑکی کے پار دیکھ رہی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک پرانا، مڑا تڑا کاغذ تھا—ایک خط، جو برسوں پہلے لکھا گیا تھا، مگر آج بھی اس کے دل کی دنیا کو تہس نہس کر دیتا تھا۔
یہ خط حسن نے لکھا تھا، وہی حسن جو کبھی اس کی دنیا تھا، جس کے بغیر جینے کا تصور بھی محال تھا۔ مگر اب وہ محض ایک یاد بن چکا تھا۔
اس نے آہستہ سے خط کھولا، الفاظ جیسے آنکھوں میں دھندلا گئے۔
رمشا
جب تم یہ خط پڑھ رہی ہوگی، میں شاید بہت دور جا چکا ہوں۔
تمہیں یاد ہے، ہم نے کتنے خواب دیکھے تھے؟ کتنے وعدے کیے تھے؟ مگر شاید تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
میں نے تمہیں ہمیشہ خوش دیکھنا چاہا، مگر شاید میں تمہاری خوشیوں کے قابل نہیں تھا۔
میری جدائی کو سزا مت سمجھنا، بلکہ ایک نئے سفر کی شروعات سمجھنا۔
اگر کبھی بارش میں کھڑکی کے پاس بیٹھو، تو یہ مت سمجھنا کہ میں نہیں ہوں… میں وہی بوند بن کر تمہارے قریب آ جاؤں گا۔
ہمیشہ خوش رہنا۔
تمہارا
حسن
رمشا نے خط کو سینے سے لگا لیا۔ آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔
یہ آخری خط تھا، جس کے بعد حسن کبھی واپس نہیں آیا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں گیا، کیوں گیا، اور کیا وہ اب بھی زندہ ہے یا نہیں۔
مگر ہر بارش کی بوند میں، رمشا کو ایسا لگتا جیسے حسن نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا ہو… وہ اب بھی وہیں تھا، وہی محبت، وہی یادیں، مگر صرف ایک سرگوشی کی صورت میں۔