دوستی کا قرض
گاؤں کے کنارے دو سچے دوست رہتے تھے، یاسر اور کبیر۔ دونوں بچپن سے ایک دوسرے کے ساتھ تھے، جیسے سایہ اور روشنی۔ یاسر کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا، جبکہ کبیر کے والدین زمیندار تھے۔ کبیر کے پاس سب کچھ تھا، لیکن یاسر کی دوستی نے اسے وہ خوشی دی جو دنیا کی کسی چیز سے ممکن نہ تھی۔
یاسر کی مشکل
ایک دن یاسر کے والد سخت بیمار ہو گئے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ ان کا علاج بڑے شہر کے اسپتال میں ہوگا، لیکن اس کے لیے بہت پیسے چاہیئے تھے، جو یاسر کے پاس نہیں تھے۔ یاسر کے لیے یہ سب بہت مشکل ہو رہا تھا۔
یاسر نے کبیر سے کچھ نہ کہا، کیونکہ وہ اپنی خودداری پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لیکن کبیر نے اس کی خاموشی میں چھپی پریشانی کو بھانپ لیا۔
کبیر کا قدم
کبیر نے اپنی ماں سے کہا، “اماں، یاسر کے والد بیمار ہیں، اور ان کا علاج کرانا ضروری ہے۔ میں اپنی جمع کی ہوئی رقم انہیں دینا چاہتا ہوں۔
ماں نے مسکرا کر کہا، “بیٹا، یہ دوستی کا اصل امتحان ہے۔ جو ضرورت میں ساتھ دے، وہی سچا دوست ہے۔
کبیر نے یاسر کے گھر جا کر رقم دی اور کہا، “یہ قرض نہیں، بھائی کے لیے بھائی کا تحفہ ہے۔” یاسر نے آنکھوں میں آنسو لیے کہا، “کبیر، میں یہ رقم تمہیں کیسے واپس کر سکوں گا؟” کبیر نے جواب دیا، دوستی میں حساب کتاب نہیں ہوتا، یاسر۔ بس تمہارے والد ٹھیک ہو جائیں، یہی میری خوشی ہے۔
وقت کا امتحان
چند سال بعد، یاسر نے محنت سے پڑھائی کی اور شہر میں ایک اچھی نوکری حاصل کر لی۔ اس کی زندگی بہتر ہونے لگی، لیکن کبیر کا زمیندار گھرانہ وقت کے ساتھ قرضوں میں دب گیا۔ حالات ایسے ہو گئے کہ کبیر کو اپنی زمین بیچنی پڑی، اور وہ گاؤں چھوڑ کر ایک چھوٹے سے گھر میں رہنے لگا۔
دوستی کا قرض چکانا
یاسر کو جب کبیر کی مشکلات کا پتہ چلا تو وہ فوراً گاؤں پہنچا۔ کبیر سے مل کر کہا، دوستی کا قرض اتارنے کا وقت آ گیا ہے، کبیر۔ یہ گھر تمہارا ہے، اور زمین بھی تمہاری ہوگی۔ کبیر نے حیرت سے پوچھا، یاسر، تم یہ سب کیوں کر رہے ہو؟
یاسر نے مسکرا کر کہا، دوستی کا حساب کتاب یاد نہیں؟ تم نے کہا تھا کہ دوستی میں حساب کتاب نہیں ہوتا، بس خوشی ہوتی ہے۔ آج میں تمہاری خوشی واپس لانے آیا ہوں۔
اختتام
کبیر کی آنکھوں میں آنسو تھے، اور یاسر نے اسے گلے لگا لیا۔ دونوں نے مل کر گاؤں میں اپنی دوستی کی مثال قائم کی، اور لوگوں کو سکھایا کہ دوستی صرف الفاظ نہیں، بلکہ عمل کا نام ہے۔