اجنبی راستے
ایک خوبصورت شام تھی، سورج دھیرے دھیرے پہاڑوں کے پیچھے ڈوب رہا تھا، اور ہوا میں ہلکی سی خنکی تھی۔ زید، ایک عام سا نوجوان، جو ہمیشہ اپنے خیالات میں گم رہتا تھا، آج شہر کے ایک پارک میں بیٹھا اپنی نوٹ بک میں کچھ لکھ رہا تھا۔ لکھنا اس کا شوق تھا، اور وہ اپنے لفظوں میں ایک الگ دنیا بسا لیتا تھا۔
دوسری طرف، پارک کے دوسرے کونے میں اریبہ بیٹھی تھی، جو کتابوں کی دیوانی تھی۔ آج وہ اپنی پسندیدہ کتاب کے ساتھ خاموشی سے بیٹھی تھی، ارد گرد کے شور سے بے نیاز۔ اریبہ کا ماننا تھا کہ کتابیں ہی اس کی بہترین دوست ہیں، اور لوگوں سے زیادہ وہ لفظوں کو سمجھتی تھی۔
یہ دونوں ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے، اور یہ ملاقات محض ایک اتفاق تھی۔ زید اپنی نوٹ بک پر جھکا ہوا تھا جب اچانک ہوا کے ایک تیز جھونکے نے اریبہ کی کتاب کے صفحات پلٹ دیے، اور اس کے ساتھ زید کے کاغذات بھی ہوا میں اڑنے لگے۔
زید جلدی سے اپنے کاغذات سمیٹنے کے لیے اٹھا، اور اتفاق سے ایک کاغذ اریبہ کے قدموں کے پاس جا گرا۔ اریبہ نے کاغذ اٹھایا اور دیکھا کہ اس پر ایک خوبصورت نظم لکھی ہوئی تھی۔ وہ نظم اتنی دلکش تھی کہ اریبہ کچھ دیر کے لیے رک گئی۔
زید نے اریبہ کی طرف دیکھا اور تھوڑا جھجکتے ہوئے کہا
“وہ میرا کاغذ ہے… شکریہ۔”
اریبہ نے مسکراتے ہوئے کاغذ واپس دیا اور کہا
“یہ نظم تم نے لکھی ہے؟ بہت خوبصورت ہے۔”
زید نے شرمندگی سے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا
“ہاں، لکھنے کی عادت ہے، بس شوق ہے۔”
اریبہ نے کہا
“یہ صرف شوق نہیں، یہ تو کمال ہے۔”
ان کے درمیان چند لمحوں کی یہ گفتگو بے حد سادہ اور رسمی تھی، لیکن دونوں کے چہروں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ آ گئی۔ اریبہ نے اپنی کتاب اٹھائی اور چلنے لگی، لیکن جاتے ہوئے کہا
“شاعری کو ایسے ہی مت چھپاؤ، دنیا کو دکھاؤ۔”
زید نے حیرت سے اریبہ کو جاتے دیکھا اور مسکرا کر دل میں سوچا
“شاید وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔”
یہ ملاقات ایک پل بھر کی تھی، نہ کوئی گہرا تعلق، نہ کوئی وعدہ، نہ ہی کوئی محبت کا اظہار۔ لیکن دونوں کے دل میں ایک احساس جاگا کہ کچھ لوگ اپنی باتوں سے بھی دل کو چھو لیتے ہیں۔ زید نے اریبہ کی باتوں کو سنجیدگی سے لیا اور اپنی شاعری کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔
شاید کبھی، کسی دن، کہیں وہ دونوں پھر ملیں، یا شاید نہ ملیں، لیکن ان کی یہ مختصر ملاقات ہمیشہ کے لیے ایک یاد بن گئی، جو ان کے دلوں کے کسی کونے میں محفوظ رہی۔