kahanii gawo ky bazurg ka raz ( کہانی گاؤں کے بزرگ کا راز)

گاؤں کے بزرگ کا راز

پرانے وقتوں کی بات ہے، ایک گاؤں کے درمیان ایک بوڑھا بزرگ رہتا تھا جس کا نام بابا رحمت تھا۔ وہ نہایت دانشمند اور نیک دل انسان تھا۔ لوگ دور دور سے اپنے مسائل کا حل پوچھنے اس کے پاس آتے تھے۔ بابا رحمت کے پاس ایک پرانا صندوق تھا جسے وہ ہمیشہ اپنے کمرے میں ایک کونے میں رکھتا تھا۔

صندوق کے بارے میں گاؤں کے لوگوں میں عجیب و غریب کہانیاں مشہور تھیں۔ کچھ کہتے کہ اس میں خزانہ چھپا ہوا ہے، اور کچھ کا کہنا تھا کہ یہ کوئی جادوئی چیز ہے جو بابا رحمت کو اتنا عقلمند بناتی ہے۔ لیکن کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ حقیقت کیا ہے۔

ایک دن گاؤں میں قحط پڑ گیا۔ کھیت سوکھ گئے، پانی ختم ہو گیا، اور لوگ بھوک سے پریشان ہو گئے۔ گاؤں والے بابا رحمت کے پاس آئے اور کہا
“بابا جی، آپ اتنے عقلمند ہیں، کوئی حل نکالیں۔ ہم سب برباد ہو رہے ہیں!”

بابا رحمت نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر اپنے صندوق کی طرف اشارہ کیا۔ لوگوں کی سانسیں رک گئیں۔ سب حیرانی سے اسے دیکھنے لگے۔ بابا نے صندوق کھولا تو اس میں ایک کتاب رکھی ہوئی تھی۔

بابا نے کتاب نکالی، اس کے صفحات پلٹے، اور گاؤں والوں کو ایک پرانی تکنیک بتائی کہ کس طرح زمین کو دوبارہ زرخیز بنایا جا سکتا ہے اور پانی کے نئے ذرائع کیسے ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ گاؤں والوں نے اس پر عمل کیا، اور چند ہی مہینوں میں گاؤں سرسبز ہو گیا۔

جب گاؤں والے خوشحال ہو گئے، تو انہوں نے بابا سے پوچھا
“بابا جی، یہ کتاب کہاں سے آئی؟”

بابا مسکرائے اور بولے
“یہ میری زندگی کی کمائی ہے۔ یہ کتاب حکمت، صبر، اور علم کی اہمیت بتاتی ہے۔ یاد رکھو، خزانہ سونے چاندی میں نہیں، بلکہ علم اور عمل میں ہوتا ہے۔”

یہ سن کر گاؤں والے سمجھ گئے کہ اصل راز بابا کی دانشمندی اور ان کی سچائی تھی، نہ کہ صندوق۔ اس دن کے بعد گاؤں والے زیادہ محنتی اور علم کے طالب ہو گئے، اور گاؤں ہمیشہ خوشحال رہا۔

سبق

حقیقی دولت سونا یا چاندی نہیں بلکہ علم اور حکمت ہے، جو زندگی کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

Leave a Comment