پیغامِ سحر
سحر کی پہلی کرن میں ہے ایک پیغام
وہ خواب جو کبھی نہ دیکھا تھا، سچ ہونے کا تھا
جب تک نہ سوزِ دل سے عمل میں ہو اُٹھتی
نہ سحر کا پیغام، نہ حقیقت کا جوہر
وہ سحر ہے جو تری تقدیر کا پیغام ہو
جو دل میں ہے، وہی کائنات کا پیام ہو
ہمیں تقدیر کا کچھ علم نہیں ہے
ہمیں بس اپنے عمل پر یقین ہے
کہاں تک تمازتِ شب سے غم بھرا ہو
آسمانوں میں ایک اور بھی سورج چھپتا ہے
گزر گئی رات، ہوا ہے نو رِ سحر
اب کیسی وحشتِ دنیا کا غم
علامہ اقبال