:1شعر
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقد یر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
:مفہوم
یہ اشعار علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کا اظہار ہیں۔ اس کا مفہوم ہے کہ انسان اپنی خوداعتمادی اور خودمختاری کو اتنا بلند کرے کہ وہ کسی بھی تقدیر یا حالات کا محتاج نہ ہو۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں اتنی طاقت اور ارادے کی شدت پیدا کرے کہ خدا بھی اس کی مرضی اور ارادے کے مطابق چلنے لگے۔ اقبال اس شعر میں انسان کو اپنی اندرونی طاقت کو پہچاننے اور اس کا استعمال کر کے اپنی تقدیر کا خود مالک بننے کی ترغیب دیتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انسان اپنے آپ کو اتنا مضبوط کرے کہ تقدیر اسے نہ چلائے، بلکہ وہ تقدیر کو اپنی مرضی سے بدلنے کی طاقت رکھے۔
:تشریح
علامہ اقبال (1877-1938) نہ صرف ایک عظیم شاعر تھے بلکہ وہ ایک ایسے مفکر اور فلسفی بھی تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نئی فکری اور نظریاتی سمت عطا کی۔ ان کی شاعری نے خودی، عمل، آزادی، اور اتحاد کا درس دیا اور وہ پاکستان کے نظریاتی بانی سمجھے جاتے ہیں۔ اقبال نے مشرقی اور مغربی فلسفوں کا مطالعہ کیا اور ان کا امتزاج / مجموعہ پیش کیا۔ ان کا سب سے نمایاں فلسفہ “خودی” ہے، جو انسان کو اپنی ذات کا شعور اور اعتماد حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ان کے نزدیک انسان تبھی آزاد اور خودمختار ہو سکتا ہے جب وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر عمل کے میدان میں قدم رکھے۔ اقبال کا ماننا تھا کہ انسان کی عظمت اس کے اپنے وجود میں چھپی ہوتی ہے۔ اقبال مسلمانوں کو سستی اور مایوسی سے نکال کر جدوجہد اور عمل کا پیغام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اتحاد اور اجتماعی کوششوں کے بغیر قومیں ترقی نہیں کر سکتیں۔ اقبال کی زندگی اور کام کا مقصد مسلمانوں کو بیداری اور خودشناسی کا سبق دینا تھا۔ انہوں نے فکری اور روحانی آزادی کے ساتھ ساتھ عمل اور اتحاد پر زور دیا تاکہ مسلمان ایک خودمختار قوم بن سکیں۔ اقبال کی شاعری اور فکر آج بھی مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
یہ اشعار علامہ اقبال کی شاعری کی انتہائی معروف اور گہری مثال ہیں۔ اقبال کا یہ پیغام انسان کو اپنی خودی کو پہچاننے اور اسے اتنا بلند کرنے کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ دنیا کی تقدیر کا خود مالک بن جائے۔ خُدی کا مفہوم ہے انسان کا اپنا شعور، عزتِ نفس، اور اندرونی قوت۔ اقبال یہاں انسان کو یہ ہدایت دے رہے ہیں کہ وہ اپنی شخصیت اور عزم کو اتنا بلند کرے کہ وہ خود کو ہر سطح پر طاقتور اور مضبوط محسوس کرے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی خودی کی طاقت کو اتنا بڑھا لے کہ وہ کسی بھی حالت یا حالات سے متاثر نہ ہو، بلکہ اپنی تقدیر کو خود بنانے کی صلاحیت رکھے۔ تقدیر سے مراد وہ عمل یا واقعات ہیں جو انسان کی زندگی میں پہلے سے طے شدہ یا مرتب ہو چکے ہیں۔ یہ تقدیر یا قسمت کو ایک اٹل اور غیر متغیر قوت سمجھا جاتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ انسان کی خُدی اتنی بلند ہونی چاہیے کہ تقدیر یا قسمت اس کے راستے میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ انسان اپنی تقدیر کو خود اختیار میں لے، اور اسے صرف قدرتی حالات یا واقعات کے ساتھ نہیں رہنا پڑے۔ یہاں اقبال نے ایک انتہائی بلند خیال پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب انسان اپنی خودی کو اتنا بلند کر لیتا ہے، تو وہ خُدا (جو کہ کائنات کی سب سے بڑی طاقت ہے) سے بھی ایک قدم آگے بڑھ جاتا ہے۔ اقبال کے مطابق، انسان کی اتنی طاقت اور قدرت ہو جاتی ہے کہ خُدا خود اس سے پوچھے کہ اس کی مرضی یا خواہش کیا ہے۔ یعنی انسان کو اس درجے تک پہنچنا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرے، اور کوئی خارجی طاقت اسے مجبور نہ کرے۔ یہ ایک علامتی اظہار ہے جو انسان کی آزادی اور خودمختاری کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اس اشعار میں اقبال انسان کو یہ بتا رہے ہیں کہ وہ اپنی شخصیت اور خودی کو اتنا مضبوط اور بلند کرے کہ دنیا کی کوئی بھی قوت، چاہے وہ تقدیر ہو یا حالات، اس پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ اقبال کا مقصد یہ ہے کہ انسان خود کو اتنا مضبوط اور بااختیار بنائے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرے، اور اس کی مرضی اور رضا کو ہی سب سے بڑی اہمیت دی جائے۔ یہ اشعار انسان کو خود اعتمادی، عزت نفس اور زندگی کے فیصلوں میں آزادی کی اہمیت کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اقبال اس شعر میں ہمیں یہ سکھا رہے ہیں کہ انسان کا اصل مقصد اپنی خودی کو اتنا بلند کرنا ہے کہ وہ تقدیر یا قسمت سے آزاد ہو کر اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکے۔ جب انسان اپنی اندرونی طاقت کو پہچان کر اسے صحیح طریقے سے استعمال کرتا ہے، تو وہ خودمختار اور قوی بن جاتا ہے۔ اس کے بعد تقدیر یا خدا بھی اس سے اس کی رضا اور مرضی کے بارے میں پوچھیں گے، کیونکہ وہ اپنی تقدیر کا خود ہی خالق بن چکا ہوگا۔ اقبال کے نزدیک جب انسان اپنی خود اعتمادی اور خود ارادیت میں اتنی طاقت پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنی تقدیر کو بدل سکتا ہے، تو وہ ایک ایسا شخص بن جاتا ہے جس کی رضا خُدا یا تقدیر سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس شعر کا مقصد یہ ہے کہ انسان خود کو اس حد تک بہتر بنائے کہ وہ تقدیر اور قسمت کی غلامی سے آزاد ہو کر اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکے۔
:2شعر
خودی کی حقیقت کو سمجھ، یہ ہے تو
یہی ہے تیرے لیے سب سے بڑا نشہ
:مفہوم
علامہ اقبال کا یہ شعر انسان کو اپنی خُدی کی حقیقت کو سمجھنے کی دعوت دیتا ہے۔ اقبال کے مطابق، انسان کی اصل طاقت اور حقیقت اس کی خُدی میں ہے، جو اس کی شخصیت، عزت نفس، اور اندرونی قوت کا مجموعہ ہے۔ جب انسان اپنی خُدی کو پہچانتا ہے، تو وہ اپنے آپ کو ایک نئی روشنی میں دیکھتا ہے اور اس کا اندرونی اعتماد اور قوت اتنی طاقتور ہو جاتی ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی چیلنج کا سامنا کر سکتا ہے۔ اقبال یہاں کہتے ہیں کہ یہی خُدی کا شعور انسان کے لیے سب سے قیمتی نشہ ہے، کیونکہ یہ انسان کو روحانی سکون، آزادی اور زندگی میں کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ نشہ کسی بیرونی لذت سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے، کیونکہ یہ انسان کو اپنی تقدیر کا مالک بنا دیتا ہے۔
:تشریح
علامہ اقبال (1877-1938) نہ صرف ایک عظیم شاعر تھے بلکہ وہ ایک ایسے مفکر اور فلسفی بھی تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نئی فکری اور نظریاتی سمت عطا کی۔ ان کی شاعری نے خودی، عمل، آزادی، اور اتحاد کا درس دیا اور وہ پاکستان کے نظریاتی بانی سمجھے جاتے ہیں۔ اقبال نے مشرقی اور مغربی فلسفوں کا مطالعہ کیا اور ان کا امتزاج / مجموعہ پیش کیا۔ ان کا سب سے نمایاں فلسفہ “خودی” ہے، جو انسان کو اپنی ذات کا شعور اور اعتماد حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ان کے نزدیک انسان تبھی آزاد اور خودمختار ہو سکتا ہے جب وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر عمل کے میدان میں قدم رکھے۔ اقبال کا ماننا تھا کہ انسان کی عظمت اس کے اپنے وجود میں چھپی ہوتی ہے۔ اقبال مسلمانوں کو سستی اور مایوسی سے نکال کر جدوجہد اور عمل کا پیغام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اتحاد اور اجتماعی کوششوں کے بغیر قومیں ترقی نہیں کر سکتیں۔ اقبال کی زندگی اور کام کا مقصد مسلمانوں کو بیداری اور خودشناسی کا سبق دینا تھا۔ انہوں نے فکری اور روحانی آزادی کے ساتھ ساتھ عمل اور اتحاد پر زور دیا تاکہ مسلمان ایک خودمختار قوم بن سکیں۔ اقبال کی شاعری اور فکر آج بھی مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
یہ اشعار علامہ اقبال کے خودی کے فلسفے کی عکاسی کرتے ہیں۔ اقبال کا پیغام یہ ہے کہ انسان کو اپنی خود (خودی) کی حقیقت کو سمجھنا چاہیے، کیونکہ یہی انسان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ خُدی کی حقیقت یہاں خُدی کا مطلب ہے انسان کا خود شناسی، اندرونی قوت، عزت نفس، اور خود اعتمادی۔ اقبال کے نزدیک خُدی صرف کسی کی ذات کا معمولی حصہ نہیں، بلکہ یہ انسان کی اصل حقیقت ہے، جو اس کی صلاحیتوں، ارادوں اور مقاصد کا مجموعہ ہے۔ “یہ ہے تو” اس جملے میں اقبال انسان کو بتا رہے ہیں کہ جب تم اپنی خُدی کی حقیقت کو سمجھ لو گے، تو تمہیں اپنی اصل پہچان حاصل ہو جائے گی۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ تمہاری حقیقت تمہاری شخصیت، خود اعتمادی، اور مقاصد میں چھپی ہوئی ہے۔ اقبال یہاں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تم میں بے شمار صلاحیتیں اور طاقتیں موجود ہیں، لیکن اس کا ادراک تب ہی ہو سکتا ہے جب تم اپنی خُدی کو سمجھو گے۔ اقبال کا پیغام یہ ہے کہ انسان جب اپنی خُدی کو پہچانتا ہے، تو وہ اپنے اندر چھپی ہوئی طاقتوں کو دریافت کرتا ہے اور اپنی تقدیر کو بدلنے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے۔ انسان کے اندر خودی کا شعور اسے ایک نئی زندگی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ “سب سے بڑا نشہ” اقبال نے یہاں “نشہ” کا لفظ استعمال کیا ہے، لیکن یہ مادی نشہ (جیسے شراب یا دیگر نشہ آور چیزیں) نہیں، بلکہ ایک روحانی سرور اور خود اعتمادی کا نشہ ہے۔ نشہ یہاں ایک علامتی اظہار ہے، جو انسان کی خود شناسی اور خُدی کی حقیقت سے حاصل ہونے والے روحانی سرور کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ جب انسان اپنی خُدی کو پہچانتا ہے اور اس کی حقیقت کو سمجھتا ہے، تو وہ ایک ایسی اندرونی طاقت اور خوشی حاصل کرتا ہے جو دنیا کے کسی بیرونی نشے سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ یہ خُدی کا نشہ انسان کو اس کی زندگی میں مقصد، عزم اور اعتماد فراہم کرتا ہے۔ اس روحانی نشے کا تجربہ انسان کو خودداری اور مستقل مزاجی کے ساتھ زندگی گزارنے کی توانائی دیتا ہے۔ علامہ اقبال کی خُدی کا فلسفہ بہت گہرا اور اہم ہے۔ اقبال کے مطابق خُدی انسان کی سب سے بڑی طاقت ہے، اور اسے دنیا کی ہر چیز پر فوقیت دینی چاہیے۔ ان کے نزدیک خُدی کا شعور انسان کو اپنی تقدیر کے مالک بناتا ہے اور وہ نہ صرف خود کو بلکہ دنیا کو بھی بدلنے کی طاقت حاصل کرتا ہے۔ اقبال خُدی کو ایک روحانی اور ذہنی قوت مانتے ہیں، جو انسان کی فطری صلاحیتوں، عزم اور ارادوں سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔
اقبال یہاں انسان کو یہ بتا رہے ہیں کہ خُدی کو سمجھنا اور اس کی حقیقت کو پہچاننا انسان کے لیے سب سے قیمتی اور عظیم چیز ہے۔ جب انسان اپنی خُدی کی طاقت کو پہچانتا ہے، تو وہ دنیا کے کسی بھی نشے سے زیادہ طاقتور اور کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہ خُدی کا نشہ انسان کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی طاقت اور سکون فراہم کرتا ہے، جو اسے دنیا کے کسی بھی چیلنج کا سامنا کرنے کی طاقت دیتا ہے۔ اقبال کا یہ پیغام ہے کہ خود اعتمادی اور خودی کا شعور انسان کو اندرونی طاقت، آزادی اور کامیابی کی طرف رہنمائی کرتا ہے، اور یہی سب سے بڑا نشہ ہے جو انسان کو اپنے مقصد تک پہنچا سکتا ہے۔
:3شعر
خودی کو پہچان، یہ ہی تجھ کو جینے کا راستہ
خودی کی طاقت سے تو کر ہر مشکل کو آسان
:مفہوم
علامہ اقبال کا یہ شعر انسان کو اپنی خُدی کی حقیقت کو پہچاننے کی اہمیت بتاتا ہے۔ اقبال کے مطابق، انسان کی سب سے بڑی طاقت اس کی خُدی میں چھپی ہوتی ہے، جو اس کی خود اعتمادی، عزم، اور داخلی قوت ہے۔ جب انسان اپنی خُدی کو سمجھتا ہے اور اس کی طاقت کا ادراک کرتا ہے، تو وہ اپنی زندگی کے راستے کو واضح اور کامیاب بنا سکتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ انسان اگر اپنی خُدی کی قوت سے جڑ جائے، تو وہ زندگی کی مشکلات اور چیلنجز کو آسان بنا سکتا ہے، کیونکہ اس کی اندرونی طاقت اسے ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ یہ شعر انسان کو بتاتا ہے کہ خُدی کا شعور ہی انسان کو نہ صرف زندگی کا مقصد دکھاتا ہے، بلکہ اسے مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت بھی فراہم کرتا ہے۔
:تشریح
علامہ اقبال (1877-1938) نہ صرف ایک عظیم شاعر تھے بلکہ وہ ایک ایسے مفکر اور فلسفی بھی تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نئی فکری اور نظریاتی سمت عطا کی۔ ان کی شاعری نے خودی، عمل، آزادی، اور اتحاد کا درس دیا اور وہ پاکستان کے نظریاتی بانی سمجھے جاتے ہیں۔ اقبال نے مشرقی اور مغربی فلسفوں کا مطالعہ کیا اور ان کا امتزاج / مجموعہ پیش کیا۔ ان کا سب سے نمایاں فلسفہ “خودی” ہے، جو انسان کو اپنی ذات کا شعور اور اعتماد حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ان کے نزدیک انسان تبھی آزاد اور خودمختار ہو سکتا ہے جب وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر عمل کے میدان میں قدم رکھے۔ اقبال کا ماننا تھا کہ انسان کی عظمت اس کے اپنے وجود میں چھپی ہوتی ہے۔ اقبال مسلمانوں کو سستی اور مایوسی سے نکال کر جدوجہد اور عمل کا پیغام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اتحاد اور اجتماعی کوششوں کے بغیر قومیں ترقی نہیں کر سکتیں۔ اقبال کی زندگی اور کام کا مقصد مسلمانوں کو بیداری اور خودشناسی کا سبق دینا تھا۔ انہوں نے فکری اور روحانی آزادی کے ساتھ ساتھ عمل اور اتحاد پر زور دیا تاکہ مسلمان ایک خودمختار قوم بن سکیں۔ اقبال کی شاعری اور فکر آج بھی مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
یہ اشعار علامہ اقبال کے فلسفہ خُدی کو سمجھنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ اقبال کا خُدی کا تصور انسان کی اندرونی قوت، شخصیت، عزت نفس، خود اعتمادی، اور خود مختاری سے جڑا ہوا ہے۔ ان اشعار میں اقبال انسان کو اپنی خُدی کو پہچاننے اور اس کی طاقت سے زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اقبال یہاں انسان کو اپنی خُدی کی حقیقت کو پہچاننے کی ترغیب دیتے ہیں۔ خُدی سے مراد انسان کا اندرونی شعور ہے، جو اس کی صلاحیتوں، ارادوں، عزم اور عزت نفس کا مجموعہ ہے۔ اقبال کے مطابق، خُدی کو سمجھنا اور اس کی حقیقت کو جاننا انسان کی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ جب انسان اپنی خُدی کی حقیقت کو سمجھتا ہے، تو وہ اپنی صلاحیتوں اور طاقتوں کا ادراک کرتا ہے۔ اقبال یہ بتاتے ہیں کہ جب انسان اپنی خُدی کو پہچانتا ہے، تو اس کے اندر ایک نیا اعتماد، حوصلہ، اور عزم پیدا ہوتا ہے، جو اس کی زندگی کے مقصد کو واضح کرتا ہے۔ خُدی کا شعور انسان کو زندگی کی سمت دیتی ہے۔ جب انسان اپنی خود اعتمادی پر ایمان لاتا ہے، تو وہ کسی بھی مشکل یا چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ اقبال کے نزدیک خُدی کی پہچان انسان کو روحانی آزادی، اندرونی سکون، اور اعتماد فراہم کرتی ہے، جو اس کی زندگی کا مقصد اور راستہ متعین کرتا ہے۔ خُدی کی طاقت اس جملے میں اقبال خُدی کی طاقت کو ایک اہم عنصر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جب انسان اپنی خُدی کا صحیح ادراک کرتا ہے، تو وہ اپنی اندرونی طاقت کو پہچانتا ہے۔ یہ طاقت اس کی عزت نفس، شخصیت، نیک نیتی، اور اعتماد سے جڑی ہوتی ہے، جو اسے دنیا کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے قوت فراہم کرتی ہے۔ خُدی کی طاقت انسان کو صرف ذہنی قوت ہی نہیں دیتی، بلکہ اس کی روحانیت، ہمت اور عزم بھی بڑھاتی ہے، جس سے وہ زندگی میں کسی بھی رکاوٹ یا چیلنج کو آسانی سے عبور کر سکتا ہے۔ اقبال کا کہنا ہے کہ جب انسان اپنی خُدی کی طاقت سے جڑتا ہے، تو اس کے سامنے آنے والی ہر مشکل یا چیلنج کو وہ اپنی قوت ارادی اور پرامن قوت سے آسان بنا دیتا ہے۔ یہ خُدی کی طاقت انسان کو باہمت، مضبوط ارادہ اور خود مختاری فراہم کرتی ہے، جو اسے دنیا کے کسی بھی تناؤ، پریشانی یا مشکل سے بچا سکتی ہے۔ خُدی کا شعور انسان کی روحانی طاقت اور اندرونی قوت ہے جو اسے زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور توانائی فراہم کرتی ہے۔ جب انسان اپنی خُدی کو پہچانتا ہے اور اس کی طاقت کو سمجھتا ہے، تو وہ عزم اور اعتماد سے بھرا ہوتا ہے، جو اسے ہر چیلنج کو آسانی سے عبور کرنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ اقبال کے مطابق، انسان جب اپنی خُدی کے ساتھ جڑتا ہے تو وہ اپنی تقدیر کا خود مالک بن جاتا ہے اور اپنی زندگی کے تمام فیصلے اپنے ارادوں کے مطابق کرتا ہے۔ خُدی کے شعور سے انسان کا روحانی سکون اور آزادی حاصل ہوتی ہے، اور وہ دنیا کے نظام سے آزاد ہو کر اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے۔
علامہ اقبال کا یہ پیغام ہے کہ خُدی کی حقیقت کو سمجھنا اور اس کی طاقت کو پہچاننا انسان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ خُدی کا شعور انسان کو زندگی کی مشکلات کو آسانی سے حل کرنے کی صلاحیت دیتا ہے اور اسے اعتماد، طاقت اور آزادی فراہم کرتا ہے۔ اقبال انسان کو بتاتے ہیں کہ جب وہ اپنی خُدی کو سمجھ کر اس کی طاقت سے جڑ جائے، تو وہ زندگی کے تمام مسائل کو آسانی سے حل کر سکتا ہے اور اپنی تقدیر کا خود مالک بن سکتا ہے۔ خُدی کی طاقت سے جڑا ہوا یہ پیغام انسان کو نہ صرف اپنی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا حوصلہ دیتا ہے بلکہ اسے اپنی تقدیر اور راستے کی ہمت اور آزادی بھی فراہم کرتا ہے۔
:4شعر
خودی کو پا کے تو کر دے، ہر مشکل کو آسان
خودی کی طاقت سے بن جا، تو ہر چالاکی کا جواب
:مفہوم
قبال کا کہنا ہے کہ اگر انسان اپنی خودی کو پہچان لے، یعنی اپنی داخلی قوت اور عزم کو سمجھ لے، تو وہ زندگی کی ہر مشکل کو آسان بنا سکتا ہے۔ خودی انسان کی وہ طاقت ہے جو اسے اندر سے مضبوط بناتی ہے اور وہ اپنی تقدیر کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جب انسان اپنے اندر کی طاقت اور صلاحیتوں پر ایمان رکھتا ہے، تو وہ دنیا کی کسی بھی رکاوٹ یا چیلنج کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اقبال ہمیں سکھاتے ہیں کہ اگر ہم اپنی خودی کو سمجھ کر اس پر یقین کریں، تو ہم زندگی کی مشکلات سے نہ صرف نمٹ سکتے ہیں بلکہ ان کا جواب دے کر اپنے مقاصد کو حاصل بھی کر سکتے ہیں۔
:تشریح
علامہ اقبال (1877-1938) نہ صرف ایک عظیم شاعر تھے بلکہ وہ ایک ایسے مفکر اور فلسفی بھی تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نئی فکری اور نظریاتی سمت عطا کی۔ ان کی شاعری نے خودی، عمل، آزادی، اور اتحاد کا درس دیا اور وہ پاکستان کے نظریاتی بانی سمجھے جاتے ہیں۔ اقبال نے مشرقی اور مغربی فلسفوں کا مطالعہ کیا اور ان کا امتزاج / مجموعہ پیش کیا۔ ان کا سب سے نمایاں فلسفہ “خودی” ہے، جو انسان کو اپنی ذات کا شعور اور اعتماد حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ان کے نزدیک انسان تبھی آزاد اور خودمختار ہو سکتا ہے جب وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر عمل کے میدان میں قدم رکھے۔ اقبال کا ماننا تھا کہ انسان کی عظمت اس کے اپنے وجود میں چھپی ہوتی ہے۔ اقبال مسلمانوں کو سستی اور مایوسی سے نکال کر جدوجہد اور عمل کا پیغام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اتحاد اور اجتماعی کوششوں کے بغیر قومیں ترقی نہیں کر سکتیں۔ اقبال کی زندگی اور کام کا مقصد مسلمانوں کو بیداری اور خودشناسی کا سبق دینا تھا۔ انہوں نے فکری اور روحانی آزادی کے ساتھ ساتھ عمل اور اتحاد پر زور دیا تاکہ مسلمان ایک خودمختار قوم بن سکیں۔ اقبال کی شاعری اور فکر آج بھی مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔