فتنۂ تصوف
خودى کی موت سے مغرب کے اندر فتنہ ہائے نو
تصوف کی میاں! اسرار سے کیا باخبر ہے تو؟
وہ حکمت ناز تھا جس پر، حقیقت سے تھا خالی
محبت تھی فقط اک ساز کا افسانہ ہو جیسے
خدائی بات میں لپٹی ہوئی ابلیس کی آواز
وہ لذت، دل کو جو سوزِ عمل سے دور کر دے
حرم کے دل میں سجدے اور نظر مسجد کے در پر
وہ تقلید جو روحِ انقلاب سے عاری ہو